Wednesday, December 8, 2010

jo log kehty hen dunya khod he ban gae, jhoty or ahmaq hen

 بی بی سی میں شائع ہونے والے ایک ملحد پروفیسر کی کتاب کی تشہیر کیلئے شائع ہونے والے تبصرے کاتذکرہ اس موضوع پر مفصل بحث تاریخی،سائنسی اور علمی حوالہ جات کے ساتھ ان شاءاللہ میرے مقالے میں آئے گی
جولوگ خدا کے منکرہوئے 
کچھ مفکرین،جو خدا کے وجود کو ماننے پر اس لیے راضی نہ ہوئے کہ خدا کا وجود ان کے حواس کی گرفت میں نہ آتا تھا اور ان کے خیال میں یہ ضروری تھا کہ اس کائنات کا بنانے والا بھی،اس کے اجزا کی طرح ان کے حواس کی گرفت میں آئے۔ ان لوگوں نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ کائنات بنی ہوئی ہے، بلکہ اس سے انکار کیا ہے کہ اسے بنانے والا اس کے خارج میں کوئی الگ وجود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مادہ خود اپنے آپ کو تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یعنی یہ کائنات وہ چیز ہے،جس نے خود اپنے آپ کو بنایا ہے،بہرحال انھیں اس سے انکار نہیں کہ یہ ایک بنی ہوئی شے ہے۔ کیونکہ اگر وہ اس سے انکار کردیں تو پھر اس کائنات کے بارے میں وہ سب حقائق باطل ہو جاتے ہیں ،جن کی بنیاد پر سائنس معجزات کی ایک دنیا وجود میں لے آئی ہے۔ پھر انسان کا ذاتی مشاہدہ باطل ہو جاتا ہے اور اس کے پاس کسی چیز کی کوئی توجیہ باقی نہیں رہتی۔ایسے ہی ایک سرپھرے کانام سرہاکنگ ہیں ۔ان کی جس بات کوتحقیق کانام دے کر"ریڈیو چینل بی بی سی اور دیگر مغربی میڈیا"عام آدمی کے ذہن کو تشویش میں مبتلاکرتے رہے اوردھریت کی ذہن ساز ی کرتے رہےکوئی وزن نہیں رکھتی ۔ہم بی بی سی کاصفحہ بعینہ نقل کردیتے ہیں ملاحظہ ہو

تخلیق کائنات میں خدا کی ضرورت نہیں

کائنات کی تخلیق کے موجودہ نظریے کو چیلنج کرنے والے ماہر طبعیات پروفیسر ہاکنگ دنیا کے ایک سرکردہ ماہر طبعیات سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ تخلیق کائنات کے لیے کسی خالق کائنات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

اپنی تازہ تصنیف میں انھوں نے کہا ہے کہ کائنات کی تخلیق میں خدا کے کردار کےبارے میں انھوں نے اپنانظریہ تبدیل کرلیا ہے۔ اوراب وہ اس نتیجے پر پہنچےہیں کہ ’بگ بینگ‘ محض ایک حادثہ یا پہلے سے پائے جانے والے سائنسی یامذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجودطبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ان کا کہنا ہے کہ کائنات کا از خود بننا یعنی بلا ارادہ وجود میں آنا ہی یہ دلیل ہے کہ پہلے سےکچھ نہ کچھ موجود تھا۔
سٹیون ہاکنگ اپنی نئی کتاب ’ دی گرینڈ ڈیزائین` میں اپنے نظریے کی دلالت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیرکسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔آپ سا ئنس کے قوانین کو ’خدا‘ کہہ سکتے ہیں ہاں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔
پروفیسر ہاکنگ سٹیون ہاکنگ اب کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں کسی ’ان دیکھے تخلیق کار‘ کا تصور سائنس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہاکنگ کا یہ نیا نظریہ نہ صرف ان کے اپنے ہی سابقہ نظریات کی نفی کررہا ہےبلکہ دنیائے طبعیات کے ایک سرکردہ نام سر آئزک نیوٹن کے اس نظریہ کی نفیکرتا دکھائی دیتا ہے کہ کائنا ت لازمی طور پر خدا کی تخلیق تھی کیونکہ یہ کسی بے ترتیب اور منتشر مادے سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
اس کے برعکس ہا کنگ اب کہتے ہیں کہ دنیا، اس میں ہمارا وجود میں آنا اورہماری بقا خود ایک ثبوت ہے کہ دنیا حادثتاً نہیں بلکہ کسی شے کے ہونے کانتیجہ تھی۔واضح رہے کہ ہاکنگ نے 1988 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ میں تخلیق کائنا ت میں خدا کے وجود کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ لکھا تھا کہ دنیا کی وجودیت کوسمجھنے کے لیے ایک ان دیکھے تخلیق کار کا تصور سا ئنسی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ کتاب اس برس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب تھی۔گوکہ موجودہ کتاب میں دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کےخالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔ہاکنگ نے اس سے پہلے ٹیلی وثن پرگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ آپ سا ئنس کےقوانین کو خدا کہہ سکتے ہیں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سےآپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔ہاکنگ نے یہ کتاب امریکہ کے ماہر طبعیات لیونارڈ ملاڈینو کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔کتاب قسط وار ’ٹائمز` روزنامے میں میں شائع ہورہی ہے۔سٹیون ہاکنگ گزشتہ برس تک کیمرج یونیورسٹی میں شعبہ ’علم ریاضی کے سربراہ تھے یہ عہدہ اس سے پہلے سر ائزک نیوٹن کے پاس تھا۔
پروفیسرکے دلائل کی تلخیص
آپ نے پروفیسر کے دلائل پڑھے یہاں ہم ان دلائل کی تلخیص کرتے ہیں
 ۱              اب وہ اس نتیجے پر پہنچےہیں کہ ’بگ بینگ‘ محض ایک حادثہ یا پہلے سےپائےجانے والے سائنسی یامذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجودطبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ان کا کہنا ہے کہ کائنات کا از خود بننا یعنی بلا ارادہ وجود میں آنا ہی یہ دلیل ہے کہ پہلے سےکچھ نہ کچھ موجود تھا۔
 ۲            آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیرکسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔آپ سا ئنس کے قوانین کو ’خدا‘ کہہ سکتے ہیں ہاں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔
 تجزیہ
عجیب حماقت بھر ی دلیلیں ہیں پہلی بات کہ کائنات کااز خود بننا ہی دلیل ہے کے پہلے کچھ نہ تھا۔اگر ایک صحرا میں ایک دیوار بنی ہوقریب کسی انسان کانام ونشان بھی نہ ہوپھر ان  پروفیسر صاحب کو کہاجائے کہ قریب کسی انسان کااتا پتانہیں ان دیواروں کاخود بخود بن جانا اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے سے کچھ موجود نہ تھاخود ہی دیوار  بن گئی تو یہ بات ان بڑے میاں کو سمجھ نہ آئے گی اور وہاں اس کابنانے والاکوئی انسان بتائیں گے۔
ایک دیوار تو خود بخود بن نہیں سکتی اور اتنابڑا عالم خود ہی بن گیا۔
دوسری دلیل بھی ایسی ہی بے سروپا ہے کہ آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیرکسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔یہ بات تو ٹھیک ،مگر دماغ میں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اتنا بڑا نظا م کشش ثقل خود ہی بن گیاایک دیوار تو خود بخود بن نہیں سکتی ۔ آخر کو ئی بنانے والاتو ہے۔      
"کھوداپہاڑ نکلا چوہا" کی مثل ایسے ہی موقع کے لئے وضع کی گئی ہے ان دانشوروں کی عقل کا اندازہ لگائیے کہ اتنا شور مچایااور اسکی کتاب کی سب سے مضبوط دلائل کوذکرکیا جن کا یہ حال ہے ۔
اصل بات کیاہے؟
یہ مادہ پرست ذہنیت کے لوگ حقیقتاً ایک آزاد ذہن نہیں رکھتے بلکہ ایک طے شدہ ذہنیت ہے جس سے وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں اس کااندازہ اس بات سے کریں جو ہارون یحی صاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی کے استاد رچرڈ لیونٹس جو اپنے آپ کو مادہ پرست اور سائنس دان سمجھتے ہیں ،ان کاقول نقل کیاہے ملاحظہ فرمائیں:
"ہم مادہ پر ایمان لائے ہیں اور گزشتہ تسلیم شدہ اشیاء کو بھی مانتے ہیں ،مادی فلسفہ پر یہ ایمان اور اس سے ہماراتعلق وہ امر ہے جس کی بنا پر ہم دنیامیں موجود تمام چیزوں کی مادی تفسیر اور مادی مفہوم بیان کرتے ہیں ،سائنس کے قواعد و ضوابط نہیں بلکہ مادیت پر ہماراایمان ہمیں دنیا میں موجود تمام چیزوں کی مادی تفسیر کے لئے جاری تحقیقات سے لامحدود تعاون کرنے پر مجبور کرتا ہے  ، چونکہ مادیت غیر مشروط طور پردرست ہے اس لئے ہم الہی اور خدائی تفسیر کو ان واقعات کے سامنے ہر گز نہیں سن سکتے "
یہ الفاظ  ان سائنسدانو ں کی ہٹ دھرمی اور مادی فلسفے سے ان کی اندھی وابستگی کے غماز ہیں ۔ اس نظرئیے کے غالی اور انتہا پسند لو گوں کاخیال ہے کہ مادہ کے سوا کسی چیز اکاوجود ہی نہیں اس لئے وہ  یہ سمجھتے ہیں کہ جانداروں کاوجو د ، بے جان مادہ کی وجہ سے ہے۔
ان پروفیسرہاکنگ صاحب کابگ بینگ سے "کائنات کے خداکی تخلیق نہ ہونے پر"کااستدلال اسی تعصب سے بڑھ کرکچھ نہیں ، اس کی وضاحت آگے ہوگی اس سے پہلے یہ سن لیں کہ ان کی برادری کے لوگ( یعنی مادہ پرست سائنسدان جوکہ خدا کہ وجود کے منکر ہیں ) پہلے پہل اس کے برعکس یہ نظریہ رکھتے تھے کہ دنیاساکن ہے یعنی اپنے حال پر قائم ہےاور عد م سے وجود میں نہیں آئی  لہذ ااس کےلئے کسی خداکاتصور ضروری نہیں مزید برآں وہ یہ وضاحت بھی کرتے تھے کہ ہم اس کائنات کواس وقت کسی خدا کی مخلوق ماننے کو تیار ہونگےاگر یہ ثابت ہوجا ئے کہ کائنات عدم سے وجودمیں آئی ہو کیونکہ عدم سے وجود میں آنامستلزم ہوگاکسی موجد کے وجود کو۔اُس زمانے کے سائنسدان   ایک عرصہ تک اس بات کو بنیاد بناکرشور کر تے رہے،اس بارے میں یحی ٰ ہارون لکھتے ہیں:
'مادیت انیسویں صدی میں اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی ،اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ"ساکن کائنات" کا وہ خاکہ تھا،جسے  کائنات کے وجود میں آنے کے سوال کے جواب کے طور پر پیش کیاگیا،اس خاکہ کی روسےچونکہ  کائنات دائمی ہے یعنی اس کاکو ئی آغاز ہے نہ کو ئی انجام، اس لئے اس کےوجود میں آنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔یہ مان لیا گیا کہ کائنات مادے کامستقل ،مستحکم اور غیر متغیر مجموعہ ہے اس لئے یہ اپنی پیدائش کے لئے کسی خالق کی متقاضی ومحتاج نہیں۔
اس صدی کی دوسری دہائی میں مشاہدات نے ثابت کیا کہ  کائنات ساکن نہیں اور اس کاایک نقطہ آغاز ہے۔اس دریافت نے خالق کائنات کی موجودگی کاسوال بھی اٹھایا۔مادیت پسند فلسفے کے معروف مفکرجارج پولٹزر نے اپنی ایک کتاب میں یوں لکھاہے :
"کائنات ایک پیداکیا گیاوجود نہیں ۔اگر ایسا ہے تو اسے خدانے پیداکیاہوتااور وہ اسے لاشیٔ سے وجود میں لایا ہوتا۔تخلیق کو ماننے کے لئے یہ ضرور ی ہے کہ یہ طے کرلیاجائےکہ ایک لمحہ تھاجب کائنات موجود نہیں تھی اور کوئی شی لاشی ٔ سے وجود میں آئی ۔ یہ ایک ایساامرہے جسے سائنس تسلیم نہیں کرتی ۔"
دیکھیں ایک صدی پہلے کاسائنسدان اسی بات کوکہ' کائنات کسی خالق کی مخلوق نہیں ہے' جو آج یہ پروفیسرہاکنگ صاحب اس تجربہ کی آڑ میں ثابت کرناچاہتے ہیں ،اس کے بالکل برعکس سائنسی نظریہ سے یہ نتیجہ نکال رہے ہیں ،اصل بات ان مادہ پرستوں کی  ہٹ دھرمی ہے ،تجربہ سے جو مرضی ثابت ہوجائے "میں نہ مانوں کہ قاعدہ سے "نتیجہ یہی نکالیں گے کہ خداکاتخلیق ِجہاں میں کوئی دخل نہیں ،یہ نتیجہ کسی علم وہنر سےنہیں بلکہ ہٹ دھرمی سے ہے۔
بگ بینگ کاخیال کیسے پیدا ہوا؟
۱۹۲۹ء میں کیلیفورنیا کی ماؤنٹ ولسن رصدگاہ میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے جو حقیقت دریافت کی اسے فلکیات کی عظیم ترین دریافتوں میں شمار کیا جاسکتاہے۔بہت بڑی دور بین سے ستاروں کامشاہدہ کرتے ہوئے اسے پتہ چلاکہ اس نے آنے والی روشنی طیف کے سرخ سرے کی طرف تحویل ہوتی ہے ۔ کوئی ستارہ جتنادور ہے اس تحویل کی شرح اتنی ہی نمایاں ہے۔اِس دریافت نے سائنسی حلقوں میں ہلچل مچادی ۔اس کی وجہ یہ تھی  کہ مسلمہ سائنسی اصولوں کی رو سے اگر روشنی کا سر چشمہ مشاہدہ کرنے والے کی طرف بڑھ رہاہوتو اس سے خارج ہونے والی شعاعوں کو کوالٹرا وائلٹ سرے کی طرف تحویل ہوناچاہئے ،اس کے برعکس اگر یہ سرچشمہ مشاہدہ کرنے والے سے دور ہٹ رہاہوتو اس سے نکلنے والی شعاعوں کو سرخ سرے کی طرف تحویل ہوناچاہئے ۔ ان معلو مات کی روشنی میں ہبل کے مذکورہ بالامشاہدے کا مطلب یہ نکلتاہے کہ کائنات ہم سےدور ہٹ رہی ہے۔
اس کےفور اً بعد ہبل نے ایک اور دریافت کی ،ستارے اور کہکشائیں صرف ہم سے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بھی دورہٹ رہی ہیں ۔جس کائنات میں سب چیزیں ایک دوسرے سے دور ہورہی ہوں اس کےبارے میں صرف یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ مسلسل پھیل رہی ہے۔ اس تصور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ایک غبارے کاتصور کریں جس کی سطح پرنقطے بنے ہوئےہوں۔ جب غبارہ پھلایاجائے گاتو یہ نقطے ایک دوسرے سے دور ہٹیں گے۔کہکشائیں بھی ان نقطوں کی طرح ایک دوسرے سےدور ہٹ رہی ہیں۔
ہبل کے مشاہدے اور دریافت سے پہلے آئن سٹائن یہی حقیقت نظری دریافت کرچکا تھا۔البرٹ آئن سٹائن نے اپنے نظریہ ٔ اضافیت کے لئے جو ریاضیاتی مساواتیں بنائیں ان کی رو سے کائنات ساکن نہیں ہوسکتی ۔ آئن سٹائن اپنی اس دریافت پر خود بھی حیران ہوا ۔اسے اس ان چاہے نتیجے سے بچنے کے لئے اپنی مساوات میں کائناتی مستقل شامل کرناپڑا۔اس وقت کی فلکیات کے مطابق کائنات ساکن تھی اور وہ نہیں چاہتاتھاکہ اس کانظریہ ساکن نظریات کے خاکے سے متصادم ہو۔آئن سٹائن نے کائنات پر اپنانظریہ واپس لے لیا۔وہ اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کہتاتھا۔
؁۱۹۲۲ء میں پہلی مرتبہ روسی سائنسدان الیگزینڈر فریڈ میں نے نظریہ ٔاضافیت کی بنیاد پر دریافت کیاکہ کائنات ساکن نہیں اور اس میں سکڑاؤیاپھیلاؤ آسکتاہے۔اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے فریڈمین نے آئن سٹائن کے مضمون مطبوعہ ؁۱۹۱۷ء میں اس کے کائناتی مستقل کی تصحیح بھی کی۔
بلجیم کے سائنسدان جارج لیمر نے ان نتائج کی بنیاد پر پہلی بار یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات  کاایک لمحہ ٔ آغاز بھی تھااور اپنے اس آغاز کے بعد سے یہ متواتر پھیل رہی ہے ۔ اس نے یہ بھی کہاکہ آغاز کے بعد سے یہ متواتر پھیل رہی  ہے۔اس نے یہ بھی  کہاکہ آغاز کے وقت جو شعاعیں خارج ہوئی تھیں انہیں شناخت کیا جاسکتاہے۔ ان شعاعوں کو کائناتی پس منظر ی شعاعوں کانام دیا گیا،اور یہ بعد میں دریافت بھی ہوگئیں۔


اور شروع میں جب بگ بینگ کافلسفہ معلوم ہوا اور یہ معلو م ہو ا تو اس برادری کوبڑی فکر ہوئی اور اس حقیقت کو رد کرنے کی کوششیں کیں گئیں کیونکہ عدم سے کسی شی کاوجود میں آنا مستلز م ہے موجد کو ،جس سے خالق کا وجود ثابت ہوجاتا،تو اولا اس برادری کے لوگوں نے اس کا روکنے کی پوری کوشش کی مگر جب بگ بینگ کی حقیقت روز ِ روشن کی طرح سامنے آگئی تو کئی عشروں ان لوگوں کو سانس سونگارہااور سوچتے رہے بولیں تو کیسے بولیں۔ اب تقریبا ۵۰ سال کی خاموشی کے بعد یہ مادہ پرست نئے لباس میں آرہےہیں۔ تفصیل ان شاء اللہ حوالہ جات کے ساتھ مقالے میں۔
یہ کائنات بغیر خالق کے وجود میں نہیں آسکتی
جدید سائنس اس بات  کوتسلیم کرتی ہے کہ اس کائنات کاوجود کسی خاص نقطے پر ایک زبردست دھماکے سےہوا اس کے بعد کائنات نے پھیلتےپھیلتےموجودہ شکل اختیار کی ۔یہ دھماکہ تقریباً ۱۵ارب سال پہلے ہوا تھا۔ چنانچہ فضاء، کہکشائیں،سیارے،ستارے،غرض کائنات کے تمام اجزائےترکیبی ہلاکت خیزانداز میں اندازمیں اندھا دھندبکھر جاتے ، مگر جو حقیقت میں وجو د پذیر ہو ا وہ اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک  انتہائی مرتب ،منظم اور نہایت مہار ت سے جڑی کائنات کووجود ملا۔ سائنسدان مادے کے اندھا دھندبکھرنےاور اس سے شمس وقمرستاروں ،سیاروں اور کہکشاؤں کی تشکیل کی مثال کسی کمرے کے اند ر پڑے گند م کے ڈھیر سے دیتے ہیں جس پر ایک دستی بم پھینکا گیاہو اور اس دھماکے سے گند م ترتیب سے رکھی خوبصور ت ڈبیوں میں بھر گئی اور وہ ڈبیاں منظم انداز میں خاص ترتیب کے ساتھ طاقچوں میں سج گئیں۔ لیکن کائنات کے اجزاء کی ترکیب اس گند م سے بھی زیادہ منظم اور خرق عاد ت ہے۔ چنانچہ پروفیسرفرڈہویل اس عظیم دھماکےقائل نہ ہونے کے باوجوداس کائنات کے نظم ونسق کے بارے میں رقم طراز ہیں :
"اس نظرئیے کاکہنا ہے کہ کائنات کو وجود ایک عظیم دھماکے کے بعد ملاجبکہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہر دھماکے سے چیز سے چیز وں کے..................
آخر وہ کون سی چیز تھی جس نے اس ساری کائنات کو مرتب کردیاوہی تو خداہے۔
 
اللہ تعالی ہی کائنات کے خالق ہیں ۔
یہ بات اتنی عام سادہ اور واضح ہے جسے ہر عقل والا سمجھ سکتا ہے ۔اس بارےمیں تفسیر ابن کثیر میں آیت "یایھاالناس اعبدواربکم " سورۂ بقرہ کے ذیل میں چند واقعات مذکور ہیں ان کو نقل کر دیناکافی ہے۔
کسی دیہاتی سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالی کے وجود پر کیادلیل ہے؟ تو اس نے بڑے زبردست اشعار کہے
"یاسبحان اللہ  ان البعرلیدل علی البعیر
وان اثرالاقدام تدل علی المسیر
فسماء ذات ابراج،وارض ذات فجاج، وبحار ذات امواج
الایدل ذلک علی وجود اللطیف الخبیر"
ترجمہ : سبحان اللہ ! مینگنی سے اونٹ کاعلم ہوجاتا ہے اور قدموں کے نشانات سے راہ گذر کاعلم ہوجاتاہے
تو اتنے بڑے برجوں والے آسمان ،کشادہ راستوں والی زمین اور موجوں والے سمند ر سے اللہ لطیف خبیر کاعلم کیسے نہیں ہوگا۔
امام مالک ؒ سے پوچھا گیاکہ اللہ کے وجود پر کیادلیل ہے ؟تو انہوں نے رنگوں ،زبانوں اور آوازوں کے مختلف ہونے سے استدلال کیا کہ اگر یہ سب خود بخود ہوتاتو سب لوگ ایک ہی بولی بولتے ایک ہی رنگ کے ہوتے کیونکہ مشینی اصول یہ ہے کہ ایک ہی طرح کی چیز ایک جگہ سے بنتی ہے ۔
امام ابوحنیفہ ؒ سے کسی دھرئیے نے اس پر دلیل مانگی تو انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ دیر چھوڑ دو میں ایک واقعہ کے متعلق سوچ رہاہوں مجھے کسی نے بتایاہےکہ ایک کشتی پانی میں کھڑی ہے اس میں بہت سا سامان ِتجارت ہے مگرنہ ساتھ کو ئی ملاح ہے نہ ہی کوئی محافظ ہے ،لیکن ناصرف یہ کہ کشتی خود بخود چل کے آئی ہے بلکہ سمندری موجوں کامقابلہ بھی کرکہ آرہی ہے تو وہ دھرئیہ کہنے لگا امام صاحب کیسی بات کرتے ہو کوئی عقل مند یہ بات کرسکتاہے؟تو امام صاحب نے فرمایا تو خود اس سے بڑی بے عقلی کی بات کرتاہے کہ یہ اتنابڑاعالم خلاء میں ایسے ہی معلق ہے کوئی اس کابنانیوالانہیں ہے۔تو وہ خاموش ہوگیا اور اسلام قبول کرلیا۔
امام شافعی ؒ سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے فرمایاکہ دیکھو یہ شہتوت کاپتہ ہے اسے ریشم کاکیڑابھی کھاتاہے توریشم دیتاہے ،شہد کی مکھی کھاتی ہے تو شہد دیتی ہے،اوربکری گائے وغیرہ چوپائے کھاتے ہیں تو دودھ دیتے ہیں اور مینگنی اور گوبر کی شکل میں نکالتے ہیں،اور ہر ن کھاتاہے تو مشک بنتاہےحالانکہ پتہ ایک ہی ہے تو اتنے سارے روپ اس کووہی ذات تو دیتی ہے۔
امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کبھی انڈا دیکھاہے کیسا مضبوط سفید قلعہ ہے بلکل چکناہے اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں ،باہر سے دیکھو تو چاندی کی طرح سفید اور اندر سونے کارنگ بھراہوا ہے اگرپھٹے تو جیتاجاگتاجانور نکل آتاہے خوبصورت اورخوش آواز۔ اسےکس نے پیدا کیا،یہ کہاں سے بن کے آگیا۔یہ سب دلیل ہےکہ اللہ پیداکرتاہے کوئی اور یہ کام نہیں کرسکتا اورنہ خود بخود یہ ہوسکتاہے۔اس مقام پر اور بہت سے عقلی ونقلی دلائل مذکورہیں ،اہل علم حضرات تفسیرابن کثیر دیکھ لیں ص۸۲،۸۳ ج ۱ قدیمی کتب خانہ عربی

Monday, November 29, 2010

bbc urdu p shay hony waly jawyd somro k balag "fatwon ka juma bazar "ka opration

ہماری اسلامی مملکت ِخداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خصوصی طور پر کچھ غیر ملکی ادارے جیسے بی بی سی لندن اور وائس آف آمریکہ اور عمومی طور پرموساد ،را اور سی آئی اے کے ایجنٹ جو ہمارے ملکی میڈیا میں گھسے ہوئے ہیں ،اور ان میں سے بعض کے متعلق ہماری خفیہ ایجنسیوں نے وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فلاں ملک کی ایجنسی کے نمائندے ہیں ،پاکستان میں اسلامی ذہن اور اسلامی نظریات کے شدید مخالف ہیں اور وقتا فوقتااسلام اور مسلم رہنماؤں کو لتاڑتے رہتے ہیں ،وہ عمومی طور پر یہ پروپیگنڈہ کرنے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں کہ مسلم رہنماؤں یا ملاؤں نے بھی وہی تاریک زمانے کے پوپ والاماحول پیداکر رکھاہے ،سائنس اور تحقیق کے یہ دشمن ہیں ،اور یہی ہیں جن کی وجہ سے ہم ترقی کی راہ سے پیچھے رہ گئے ہیں ،ایساہی ایک صاحب نے آج کے بی بی سی اردوکے ایک بلاگ میں توہین رسالت کی ایک مجرمہ کی جان بچانے کے لئے لکھاہے،میں نے بعینہ یہ بلاگ یہاں پیسٹ کر دیاہے اوراس کی لنک بھی لگادی ہے۔اس کی حقیقت کتنی ہے ،اس پربعد میں غور کرتے ہیں پہلے بلاگ مطالعہ کریں۔
بلاگ کا لنک
http://www.bbc.co.uk/urdu/columns/2010/11/101126_fatwabazaar_javed_si.shtml

"فتوے بازوں کا جمعہ بازار

جاوید سومرو
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن

آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادا افراد نے ملک میں دھمکیوں کابازار گرم کردیا ہے
کافی چندبرس پہلے کی بات ہے میں نے جنرل ضیاءالحق کے حمایتی ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ حضرات ذوالفقار علی بھٹو کی جان کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیوں ایک کمزور مقدمے کی بنیاد پر ان کو پھانسی چڑھانے کے لیے اچھل کود کررہے ہیں؟تو ان کا جواب بڑاہی سادہ تھا۔ موصوف نے فرمایہ وہ معاشرے میں فحاشی،عریانیت اور بے راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں اور اسلامی مملکت میں غیراسلامی رجحانات پیدا کررہے ہیں۔
مجھے جواب پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر سوال کیا، ‘لیکن انہوں نے شراب پر پابندی لگائی،احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرایا اور ہندوستان سے ایک ہزار برس تک لڑنے کا نعرہ لگایا تب بھی آپ کو لگتا ہے وہ غیر اسلامی رجحانات پیدہ کررہے ہیں؟مولوی کو بڑا تاؤ آیا فورا فرمایا، ‘میاں اللہ اور ان کے رسول نے جو احکامات دیئے ہیں ان سے انحراف کی سزا موت ہے۔میں ڈر گیا اور چپ سادھ لی۔
جنرل ضیاء کے زمانے سےپہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتاتھا۔ لیکن جنرل صاحب کےبل بوتے پر، عقل اور علم کا خون پی کر پروان چڑھنے والےنیم حکیموں کی گُڈی ایسی چڑھی ہے کہ اب آپ نے دلیل، منطق، فلسفے اور سائنس کی بات زبان پر لائی نہیں کہ فتوابازوں کےتن بدن میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسلام دشمنی اور رسول دشمنی کےنعرے لگاتے آپ کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
آپ نے کہا کہ بھائی پاکستان میں لگ بھگ تمام توہین رسالت کے مقدموںکاپیغمبرِ اسلام کی توہین سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ لوگ ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر اس قانون کا استعمال کرتے ہیں اس لیےقانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے، تو ایک دم سے جذباتیوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے اور دین دشمنی کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں آج تک کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کےمقدمے میں موت کی سزا پرعملدرآمد نہیں ہوا اور تقریباً تمام ملزمان مقامی عدالتوں میں سزا پانے کےبعد،اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کئی کوزیادہ عرصہ جینے نہیں دیاجاتا)۔ ان حالات میں کیا یہ تجویز غلط ہے کہ یاتو اس قانون کو ختم کیا جائے یا تبدیل کیا جائے۔
چاربچوں کی ماں آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادہ افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ کوئی بولے تو ٹھک سے اسلام اور دین دشمن قرار۔
پاکستان میں جو لوگ مسیحیوں یا دوسری اقلیتوں کے افراد کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ وہ بے چارےکس قدر سہمے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کو اپنی جان گنوانی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف زبان درازی کریں؟
آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نےمعاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اورمیڈیا میں مصروف جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کودپڑتے ہیں۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔حال میں ایک بڑے اخبار کے ’توپ صحافی‘ کا ‘عریانیت اور فحاشی‘ کے خلاف کالم پڑھا جو پڑھ کرکچھ ایسے ہی خیالات اور جذبات ابھرے جیسے پاکستان کےاخبارات میں آئے دن پاکستانی فلموں میں عریانیت کے موضوع پر چھپنے والے ان لاتعداد مضامین سے ابھرتے ہیں جن میں پاکستانی ہیروئنوں کی بڑی بڑی تصاویرچھاپی جاتی ہیں اور ان تصاویر میں ہیروئنیں کے جسم کے متعدد حصوں کو سیاہ دھاریاں لگا دی جاتی ہیں۔کبھی کبھی ایسالگتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور دین کے احکامات کے خودساختہ ٹھیکیدار،لوگوں کےذہنوں میں ابھرنے والے تمام خیالات کو بھی اسی طرح سیاہ دھاریاں لگا دینا چاہتے ہیں۔"
تبصرہ 

آپ نے موصوف سومرو صاحب کاکالم پڑھا جنہوں نے اپنے انگریز مالک کی نمک خواری کاخوب حق ادا کیاہے ، اور صاحب کے مخالفین کاخوب تیاپانچہ کیا ہے،ایک  توہین رسالت کی مجرمہ کے لئے توسومرو صاحب اور ہیومن رائیٹس کی تنظیمیں اتناچیخے۔ کاش !وزیرستان اورافغانستان میں روزانہ شہیدہونے والے بے قصورمسلمانوں کے لئے بھی انسان ہونے کے ناطے دولفظ کہہ دیتے ،فلسطین چیچنیااورکشمیر میں شہیدہونے والے ہزاروں کابھی کوئی تذکرہ ہوجاتایاامریکہ ،اسرائیل،بھارت کومعصوم انسانوں کے قتل عام سے ہی روک دیتے ،ان کاانکو کبھی خیال نہیں آئے گا۔چلو اور نہیں تو ایک مسلم بے گناہ خاتون ڈاکٹر عافیہ کابھی ساتھ تذکرہ کرلیتے!مگر حیف صد حیف ! ہم یہا ں موصوف کی باتوں کانمبروار تجزیہ کریں گےاور اس کی حقیقت  دیکھنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے سومرو صاحب نے بھٹو صاحب کی مظلومیت کاواقعہ ذکر کرکے انکے مداحوں کے قلوب میں اپنے لئے نرم گوشہ بنانے کی کو شش کی ہے ۔ اور دوسری طرف اسی واقعہ کو ایشو بنا کر جنرل ضیاءالحق کے ساتھ مولویوں کو گھسیٹ کر اپناکام آسان کرنے کی کوشش کی ہے ۔سیاست کی آڑمیں ہونے والے واقعہ کو اسلامی رنگ دے کراسلام سے برگشتہ کرنے کی مہم چلانا انگریز کاہی سکھایاہو گر ہے۔ایسے موقعوں پر ایسے پرانے واقعات پہلے انگریز کو الہام ہوتے تھے اب ان کے نمک خواروں کو ہوجاتے ہیں۔
کسی کے ایک کام غلط کرنے سے اس کے اچھے کام برے نہیں ہوجاتے ،ویسے بھی اسلامی ذہن کی نشو ونمااور آبیاری کاکام اگرچہ جنرل ضیاءمرحوم کے زمانے میں خوب ہو امگر اس کی ابتداء بھٹومرحوم کے ہی زمانے میں ہوئے ،۷۳ء کے دستور کی شکل میں انہوں نےہی  اسلامی نظریا ت  کو ایک مستحکم پلیٹ فارم مہیاکیا، پوری دنیاکے اسلامی ممالک کو ایک متحد طاقت بنانے کی کوشش کی ،اور اسلامی بم  بنانے کی ابتداء کی یہ انکی وہ خوبیاں ہے جن کی سزامیں آپکے آقا ان سے ناراض ہوئے اور آپ حضرات بھی ان باتوں کانام لیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
سومرو صاحب کی اگلی بات ملاحظہ کریں
فرماتے ہیں،
"جنرل ضیاء کے زمانے سےپہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتاتھا۔ لیکن جنرل صاحب کےبل بوتے پر، عقل اور علم کا خون پی کر پروان چڑھنے والےنیم حکیموں کی گُڈی ایسی چڑھی ہے کہ اب آپ نے دلیل، منطق، فلسفے اور سائنس کی بات زبان پر لائی نہیں کہ فتوابازوں کےتن بدن میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسلام دشمنی اور رسول دشمنی کےنعرے لگاتے آپ کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔"
اس پیر اگراف میں موصوف نے ایک تو وہی ضیاءمرحوم کے نام کی دشمنی کافائدہ اٹھاتے ہوئے مولویوں سے نفرت پیداکرنےکی کوشش کی ہے، حالانکہ اللہ اور رسول کے احکامات کے حجت ہونے کو۷۳ء کے دستورمیں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے حجت قرار دیاتھااور اس وقت سے یہ الفاظ پاکستان میں قانونی دلیل بنے ہیں ۔ہمارے دستور کے ابتدائی الفاظ ہی ایسے ہیں جن سے اوریجنل انگریز بھی اور کالے انگریز بھی ڈرتے ہیں اور خوارکھاتے ہیں اور یہ  بھٹو صاحب کے لکھوائے ہوئے ہیں ان کامفہوم عر ض کر رہاہوں ۔
حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہے اوروہ انسان اس کانائب بن کر حکمرانی کرسکتاہے۔اور مزید اس میں اس بات کی تصریح ہے کے ملک کاکوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنے گا۔یہ ہے وہ بات جس نے قرآن وسنت کو پاکستان میں قانونی حیثیت دی ۔اور یہ جناب بھٹو صاحب کا امت پر احسان ہے۔
دوسر اسومروصاحب  نےاس پیراگراف میں وہی رٹا رٹایاسبق دہرایا کہ یہ مولوی پوپ کی طرح علم وہنر کادشمن ہے اس بات کاتفصیلی جائزہ تو ہم عیسائیت اور اسلام میں تقابل کے دوران لیں گے۔یہاں ایک خارجی حقیقت کو آشکارا کردوں کہ ان صاحب نے منطق فلسفہ اور سائنس کا نام تو لیاہے مگر ان سے اگر ان علوم کی الف ،ب کے متعلق پوچھیں تو کچھ نہ بتاسکیں گے ،جبکہ فلسفۂ قدیم  اورمنطق عمومی طور پر ہر مدرسہ میں نہ صرف پڑھایاجاتاہے بلکہ ہر باقاعدہ مولوی اس کاماہرہوتاہے بعض مدارس میں جدید فلسفہ کی تعلیم بھی شروع ہوگئی ہے،سائنس اگرچہ مولوی صرف میٹرک تک کی پڑتے ہیں مگرمدارس میں میٹرک کاامتحان نقل سے نہیں ہوتا۔اورایٹم بم کومولوی اسلامی بم سمجھتے ہیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان کو محسن پاکستان اور محسن اسلام خیال کر تے ہیں اور سائنس اور دیگر علوم کے پڑھنے پڑھانے کو فرض کفایہ سمجھتے ہیں ،یعنی اگر کوئی بھی نہ پڑھے تو پوری امت گناہ گار ہوگی۔البتہ انگریز کی غلامی اور تقلید کو ضرور کفر سمجھتے ہیں ۔
ہاں آپ کے خیال میں تو آقاکی تابعداری ہی ساری منطق ،فلسفہ اور سائنس ہے۔توتو مسئلہ بنے ہی گا۔
اس کے بعد وہ غلط الزامات کو آڑ بناکر توہین رسالت کی سزاختم کرنے کی حمایت کرتے ہیں ،انکو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ توھین رسالت کے قانون کی وجہ سے بے گناہ لوگوں کی جان بچ جاتی ہے اگر یہ قانون ختم ہوگیاتوچوکوں اور چوراہوں پر ایسے لوگوں کو قتل کیاجائے گاجس میں بے گناہ کو بھی رگڑا لگ سکتاہے۔
جہاں تک معاملہ اس خاتون کاہے یہ تو مسلسل اعتراف کئے جارہی تھی یہاں تک کہ گورنرپنجاب جیسے لوگوں نے اسے نیاسبق پڑھایا ،اور سہمی  ہوئی اقلیتوں کی وضاحت بھی اسی اعتراف سے ہوجاتی ہے ،جب اتنے بڑے ادارے جن میں آپ جیسے قلم کاربیٹھے ہیں اور دنیاکی سپر پاور ان کی حمایتی ہے تو ان کو سہمنے کی کیاضرورت ہے۔ ایسے تبصروں کے ذریعے آپ کے آقا محب وطن اقلیتوں کواپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے ذہن سازی کاکام لیتے ہیں اور پھران میں اپنے جاسوس پیداکرنے کی راہ ہموار کر تے ہیں۔
سومرو صاحب نے دوسرے موضوع پرلکھتے ہوئے اپنے اصل دردکی شکایت ضروری سمجھی ۔فرماتے ہیں :
" آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نےمعاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اورمیڈیا میں مصروف جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کودپڑتے ہیں۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔"
سومرو صاحب یہاں میراتھن ریس پرہونے والے احتجاج کی طرف اشارہ کررہے ہیں ،دیکھئے وہ غم نہیں بھولتا، پرویزصاحب نے کیاکیافنون لطیفہ دیکھانے  کاارادہ کیا تھا یہ کام اگرمسلسل جاری رہتاتوروز کسی نہ کسی سڑک پربھاگتے فنون ِ لطیفہ کے نمونے نظر آتے ،مگر افسوس یہ مولوی !
یہ اس کاایک نمونہ تھاکہ کس طرح انگریز کے یہ ایجنٹ اسلام اور مسلمان راہنماؤں کو پوپ کی علم دشمنی کے تناظر میں پیش کر تے ہیں ، جسکا مقصد ایک مسلمان کو علماء سے برگشتہ کرنا اور عوام وعلماء کے درمیان فاصلے پیداکرناہے تاکہ لوگوں کو اسلامی تہذیب وتمدن سے دورکیا جاسکے اور آسانی سے دجالی تہذیب  کے قیدی بنایاجاسکے ۔